یہ بات سید عباس عراقچی نے اطالوی اخبار "لا ریببلیکا" کے ساتھ انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
انہوں نے امریکہ میں اقتدار کی منتقلی اور کانگریس پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملہ کے حوالے سے کہا کہ امریکہ کی دونوں حکومتوں کے مابین اقتدار کی اس منتقلی کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی خاص پوزیشن نہیں ہے۔ صرف یہ اہم ہے کہ کہ نیا امریکی صدر کس طرح ٹرمپ کے غلط مواقف کو درست کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کانگریس پر حملے کے دوران جو کچھ دیکھا ہے، سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ امریکہ ہے جو دنیا کو 'قانون کی حکمرانی' اور 'جمہوریت' کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ واشنگٹن میں جو کچھ ہوا وہ ہمیں امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ دکھاتا ہے۔ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ انہیں دنیا کے دوسرے ممالک کے اندرونی مسائل کو حل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے
ایرانی سینئر سفارت کار نے جوہری معاہدے کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ سے ایران کی درخواست کے بارے میں کہا کہ ایران کی درخواست حقیقت پسندانہ ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ پابندیاں ختم کرے اور جوہری معاہدے میں واپس آئے۔ ہم نے نیک نیتی کے ساتھ بات چیت کی اور جوہری معاہدے میں اپنے وعدوں پر نیک نیتی سے عمل کیا۔ اب نئی امریکی انتظامیہ کی باری ہے کہ وہ سابق انتظامیہ کی غلطیوں کا ازالہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدے میں واپسی کے لئے امریکہ کو تمام پابندیاں ختم کرنی چاہئیں۔ ہم جوہری معاہدے کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ امریکہ اپنے وعدے پورا اور پابندیاں ختم کرے۔
ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ فی الحال نئی امریکی حکومت کے ساتھ ہمیں کسی براہ راست رابطے میں دلچسپی نہیں ہے اور ہمارے خیال میں جوہری معاہدہ صحیح شکل ہے اور بات چیت اسی شکل میں ہونی چاہئے۔
عراقچی نے کہا کہ جوہری معاہدے کے حوالے سے کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے ایران اور اٹلی کے درمیان اچھے اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اٹلی ہمیشہ ہی ایران کا پہلا تجارتی شراکت دار ہے۔ اگر پابندیاں ختم کردی گئیں تو دونوں ممالک کے مابین معاشی تعلقات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ